پاکستان میں سیاسی گرفتاریاں اور جمہوری استحکام؛ کیا پاکستان آزاد ہے ؟

سیاسی گرفتاریاں

جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں سوسائٹی گرو  کرتی ہے، سوسائٹی کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتا ہے، دوسروں کے انتخاب کا احترام کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کے قیام کے لیے تلاش کرتا ہے جس کے نتیجے میں قوم اور ملک ترقی کرتے ہیں۔ اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا؛

افراد کے ہاتھوں میں ہے قوم کی تقدیر

ہر  فرد    ہے  ملت  کے   مقدر  کا  ستارہ

جمہوریت میں افراد اپنے سیاسی نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کو انتخاب کرتے ہیں اور اقتدار میں لاتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور ان کے نمائندے اکثریت کی بنیاد پر اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملک کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں اگر انہیں لگے کہ قانون میں کچھ خامیاں ہیں تو یہ قانون سازی کرتے ہیں اور قانون میں تبدیلی کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔

جمہوریت ایک انتہا بھی بے انتہا قدرت کا نام ہے جس کے تین اصلی ستون ہیں۔۔۔

  1. اکثریت (اکثریت کا احترام اور پارلیمنٹ کی بالادستی)
  2. مذاکرات (ملکی سلامتی اور ترقی کے لئے سب سے بات چیت کرنا)
  3. قانون (قانون کا احترام، قانون سازی اور قانون کا اجراء)

9 مئی کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جائے گا کیونکہ کے 9 مئی کو ایک سیاسی جماعت نے جمہوریت کے اصولوں اور قانون کے حتی ایک آرٹیکل کی بھی پروا نہیں کی اور قدرت کے نشے میں دھت پاکستان کے دفاعی خطوط کی بھی پروا نہیں کی اور پاکستان کی ملٹری انسٹالیشن کے اوپر حملہ کردیا۔  یہ حملہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ایک جنگ داخلی کی پریکٹیکل دھمکی تھی کہ اگر ہمیں سپورٹ نہیں کیا گیا تو ملک چلنے نہیں دیں گے اور اس دھمکی کے بعد سیاسی مشینری، تھنک ٹینک اور ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز حرکت میں آگئے اور ایک سیاسی جماعت جو اکثریت حاصل نہ کر سکی تھی اور خود اتحادی جماعتوں کی وجہ سے اقتدار میں آئی تھی پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا اور کیونکہ پی ٹی آئی کے تمام سیاسی رہنما  9 مئی کے واقعات کو لاجیکلی دفاع نہ کر سکے، اپنی سیاسی جماعت اور سیاسی کیریئر سے جدا ہو گئے۔ جب آپ خود جمہوریت کو انتخاب کریں اور جمہوری سیاسی کھلاڑی ہوں اور اور پھر خود ہی جمہوری نظام کو داؤ پر لگا دیں تو جمہوری استحکام کے لیے سیاسی گرفتاریاں شروع ہوجاتی ہے۔

جب آپ قانون کا احترام نہ کر رہے ہیں کسی بھی جمہوری سیاسی جماعت سے مذاکرات نہ کریں اور اکثریت رائے کو قبول کرنے سے انکار کردے تو آپ جمہوریت کے راستے سے دور ہو چکے ہیں اور جمہوری نظام میں ان افراد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کبھی بھی اس جماعت کا حصہ نہ بنیں کیونکہ قانون اکثریت اور مذاکرات کو نہ ماننے والوں کو تاریخ ہمیشہ ڈکٹیٹرذکے نام سے جانے گی۔

جمہوری راھنما جب اقتدار میں آتے ہیں تو اکثر بھول جاتے ہیں کہ جمہوری اقتدار حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ملا ہے۔  آپ لوگوں کے ووٹوں سے ان کے امانت دار بن کر حکومت کرنے کے لئے آئے ہیں اور یہ سیاسی لوگ اچانک قانونی غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس قانونی غفلت میں انجانے یا جانے میں سرزد ہوئی  غلطیاں سیاستدانوں کی انا کا مسئلہ بن جاتی ہے اور اقتدار کا نشہ ان جمہوری رہنماؤں کو انقلابی رہنماؤں میں تبدیل کر دیتا ہے جو کہ جمہوری نظام سے متضادہے اور اگر ایسا ہوجائے تو ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہو جاتا ہے اور جمہوری اسٹیک ہولڈرز سیاسی گرفتاریوں کے ذریعے اس انقلابی موج کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں  تاکہ جمہوری نظام دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ اور یہ جمہوری ناکام سیاست دان، ہم کیوں غلام ہیں کا نعرہ لگا کر اور انقلابی راستہ اپنا کر اپنی سیاست بچانے کی کوشش کرتے ہیں چاہے ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے