پاکستان کا سیاسی نظام اور سیاسی جماعتیں – کیا پاکستان آزاد ہے ؟

پاکستان کا سیاسی نظام

پاکستان کا شمار دنیا کی جوان ترین ریاستوں میں سے ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کو بنے ہوئے ابھی صرف 75 سال ہی ہوئے ہیں پاکستان کی تاریخ ابھی ایک صدی کی بھی نہیں ہوئی لیکن اس کے نظریے اور ائیڈیالوجی کو تقریبا ایک صدی ہو گئی ہے اور اس ایک صدی میں پاکستان کا سیاسی نظام ارتقائی مراحل کا پہلا مرحلہ بہ خوبی کے ساتھ سرانجام کو پہنچا چکا ہے.

پاکستان دو قومی نظریے کے تحت بنایا گیا تھا جس کا مطلب برصغیر میں دو قومیں ہیں مسلمان اور ہندو. پچھلی ایک صدی میں اگر ہم دیکھیں تو ہندو ایک قوم بن چکے ہیں مگر برصغیر کے مسلمان کئی قوموں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور تقسیم کا یہ سلسلہ اج بھی چل رہا ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک قوم بننے سے روکنے کی انتھک کوششیں کی جا رہی ہیں.

برصغیر کی تقسیم سے لے کر اج تک مسلمانوں کو ایک قوم بننے سے روکنے کے لیے مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں نے مہم ترین کردار ادا کیا ہے کیونکہ تقریبا ساری کی ساری سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ کسی نہ کسی بیرونی قوت کی حمایت حاصل رہی ہے اور تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے قدرت میں انے کے لیے ہمیشہ بیرونی قوتوں سے مدد مانگی ہے اور بیرونی قوتوں نے اقتصادی اور میڈیا کی حمایت کر کے اپنے من پسند کے سیاسی رہبران کو اقتدار دینے کی کوشش کی ہے.

محمد علی جناح نے جب سیاست میں قدم جمائے تو اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنانے کی بجائے مسلم لیگ جو کہ اس دور کے نوابوں, جاگیرداروں اور وڈیروں کی سیاسی جماعت تھی میں شمولیت اختیار کی اور اپنا وژن دو قومی نظریے کو معرفی کرنا شروع کر دیا. محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کے قیام کا مقصد ایک آزاد ریاست جس میں پانچ بڑے قومی دھڑے پ (پنجابی), ا (افغانی یا پٹھان), ک (کشمیری), س (سندھی) اور تان (بلوچستانی) کو ایک قوم بن کر رہنا تھا مگر اس ایک قوم بننے کا خواب تقریبا ایک صدی گزرنے کے باوجود آج بھی ادھورا ہے اور پاکستان کی ہر جغرافیائی حدود میں ایک خود مختار اور قوم  پرستی کی تحریک ہے جو کہ نہ صرف دو قومی نظریے کی منفی کرتی ہے بلکہ اس خطے میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے بہت بڑے خطرے کی پیشنگوئی بھی کرتی ہے.

اگر ہم پاکستان کے سیاسی خدوخال کو دیکھیں تو پاکستان کے ہر الیکشن میں بہت ساری نئی جماعتیں بنتی ہیں اور ان کے فاؤنڈرز غیر جمہوری اور غیر ملکی طاقتوں سے مل کر اپنے ایجنڈے فائنل کر کے اپنی جماعت کا اعلان کرتے ہیں ایسی ساری جماعتیں کبھی بھی ملک اور قوم کی وفادار نہیں ہو سکتیں.  پاکستان کے سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے ہم پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.

  1. ایک وہ تمام سیاسی جماعتیں جو کہ قیام پاکستان کے وقت تحریک پاکستان کا حصہ تھی جنہوں نے اپنی شخصی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دو قومی نظریے کی حمایت کی اور ہم ان کو فاؤنڈنگ پارٹیز آف پاکستان بھی کہہ سکتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو اسلامی لبرل ریاست بنانا تھا.
  2. دوسری وہ ساری سیاسی جماعتیں جو پاکستان کے جاگیرداروں, بزنس مافیا اور غیر جمہوری قوتوں کی ایجاد کرتا ہے جن کا مقصد صرف اور صرف اقتدار ہے تاکہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے سکیں ان کو ہم ٹیمپرریلی اسٹیبلشڈ پولیٹیکل پارٹیز بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ایک ٹائم گزرنے کے بعد ان کا وجود ختم ہو جاتا ہے.
  3. تیسری قسم کی وہ ساری سیاسی جماعتیں ہیں جو کہ کسی بیرونی قوتوں نے اپنے ایجنڈے کے لیے پاکستان میں قائم کی ہیں اور ان کو بنانے والے وہ سارے لیڈران اپنی زندگی کے کچھ سال یا دہائیاں باہر گزارنے کے بعد ملک میں واپس آ جاتے ہیں اور ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرتے ہیں یہ سیاسی لیڈران جو کہیں کہ ہم ملک کی خاطر واپس آئے ہیں تو یہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہوگا کیونکہ اگر ملک اور قوم مہم ہوتے تو کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنتے نہ اپنی سیاسی جماعت قائم کرتے. نئی سیاسی جماعت کا بنانے کا مقصد ان کا ایک مخصوص ایجنڈا ہے جو کہ ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں پتہ اسی لیئے اس طرح کی سیاسی جماعتوں کو ہم پراکسی پولیٹیکل پارٹیز اف پاکستان بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ کسی اور ایجنڈے کی پراکسی کا کام کر رہی ہوتی ہیں.

پاکستان 1947 سے لے کر آج تک اپنے سب سے بڑے دشمن پاکستان کی وہ سیاسی پارٹیاں جو کہ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں ان کے ساتھ جنگ میں ہے اور یہ دشمن ہر طرح کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ہماری قوم کو کنفیوژن میں رکھنے اور ان کو تہذیب کے دائرے سے دور رکھنے میں مشغول کار ہیں. ان کا,مقصد  ملک اور قوم میں انتشار, اپس میں لڑائی جھگڑے اور ملک کو ترقی کی راہ سے دور کرنا ہے.

پاکستان 1947 میں ایک ازاد ریاست تو بن گیا مگر پاکستان کو پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت کو پاکستان چلانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا کیونکہ پاکستان کی ترقی کا ضامن پاکستان کو بنانے والی سیاسی جماعتیں ہیں جن کو دوبارہ اتحاد کے ساتھ اکٹھا چلنے کی ضرورت ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے