فارن امپورٹڈ کرائسس اور پاکستان کا سیاسی نظام ;کیا پاکستان آزاد ہے!

فارن امپورٹڈ کرائسس

پچھلے کچھ مہینوں میں ہمارے اخبار، میڈیا گروپس، سوشل میڈیا اور آج کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے فارن امپورٹڈ کرائسس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور ملک میں ہونے والے تمام منفی واقعات (مہنگائی, بجلی اور گیس کی قلت, پانی پاکستانی روپے کی قدر کا کم ہونا وغیرہ وغیرہ) کو فارن امپورٹڈ کرائسس سے جوڑا گیا ہے اور پاکستان ایک سیاسی بحران کا شکار ہوگیا اور پاکستان کو سخت حالات میں سے گزرنا پڑا۔

فارن امپورٹڈ کرائسس کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے تین مندرجہ ذیل نکات کو سمجھنا ضروری ہے.

  1. سب سے پہلے پاکستان ایک لبرل اسلامی جمہوری ملک ہونے کے ساتھ ساتھ او آئی سی OIC اور کامن ویلتھ Commonwealth کا حصہ ہے اس کا مطلب یہ کہ ہمیں اپنی فارن پالیسی میں اسلامی دنیا اور کامن ویلتھ کے مفاد کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ اسلامی دنیا اور کامن ویلتھ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کے نیشنل مفاد کا خیال رکھ سکیں۔  لہذا ہر طرح کی سیاسی بحث جس میں پاکستان کے تعلقات ان دو ممالک گروہ سے خراب ہوں ملک اور قوم سے خیانت کرنے کے مترادف ہو گی کیونکہ ہم اس طریقے سے انٹرنیشنل سطح پر تنہائیوں کا شکار ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایٹمی ملک اور اسلامی دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوت ہونے کے ناطے ہمیں یونائیٹڈ نیشن UNO کی  ویٹو پاورز کے ساتھ اچھے تعلقات بھی بنانے ہیں کیونکہ کسی بھی ایک ویٹو طاقت کی نارضایتی ہمیں اس ملک کی سینکشنز Sanctions کی طرف لے جائے گی جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور ہر طرح کی سیاسی مخالفت ان پانچوں ممالک کے ساتھ بھی ملک کو بحران کی طرف لے کر جا سکتی ہے جو کہ ملک کے ساتھ خیانت کرنے کے مترادف ہے۔
  2. پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہت حساس اور اہم ہیں اور یہ بھی نظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں تین پاکستان کے دشمن بھی ہیں جو نہیں چاہتے پاکستان ترقی کی راہ پر ہموار ہو سکے اور چین کے علاوہ یہ تینوں ممالک آپس میں اتحاد بنا کر بیٹھے ہیں اور آس لگاکر بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی پاکستان کوئی سیاسی بحران شروع ہو اس ملک کے استحکام کو خراب کر کے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کیا جائے اور اپنے گندے مقاصد میں کامیاب ہو سکیں تو یاد رکھیں ہمارا ہر وہ کام جو ملک میں سیاسی استحکام کو خطرے میں ڈالے تو بھی ہم ملک کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں کیونکہ ہم اپنے دشمنوں کو جو ہمارے بارڑرز پر بیٹھے ہماری غلطیوں کا انتظار کر رہے ہیں ان کے آلہ کار بن رہے ہیں اور ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
  3. تیسرا اور سب سے اہم موضوع، جب ہم پاکستان کے سیاسی نظام کا حصہ بنتے ہیں یعنی ایک سیاسی جماعت کا انتخاب کرتے ہیں یا کسی ایک سیاسی لیڈر کی کو فالو کرتے ہیں تو ہمارے لئے پاکستان کے قانون کی پاسداری کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے اور اگر آپ کے مطابق یہ قانون دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہیں اور آپ کی نظر کے مطابق پاکستان کو ایک نئے قانون کی ضرورت ہے تو اس جماعت کا حصہ بنیں اور اس لیڈر کو فالو کریں جس کے منشور میں پاکستان کے لیے ایک نیا قانون لانا ہے کیونکہ پاکستان کا قانون تبدیل کرنے کے لئے آپ کو اس کو مانتے ہوئے 76 فیصد لوگوں کی حمایت درکار ہے تاکہ آپ ملک کے لئے نیا قانون لاسکیں لیکن اگر آپ کا لیڈر یہ کہے کہ یہ قانون ٹھیک نہیں ہے ہم نیا نظام لائیں گے اور نیا نظام لانا ان کی سیاسی جماعت کے منشور میں نہ ہو تو وہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر اس ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کے چکر میں ہے ایسی کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ مت بنیں۔

ان تینوں نقاط کو سمجھنے کے باوجود بھی آپ کہیں نہیں جی میرا تو کوا سفید ہے اور آپ اپنی ایک اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ جائیں تو یاد رکھیں جس دن آپ نے دوسروں کی اینٹوں کو اٹھانا شروع کیا تو ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ آپ کے ساتھ نپٹے گی کیونکہ ایک اینٹ کی مسجد میں باجماعت نماز نہیں ہوتی اس کے لیے آپ کو ایک جماعت کی حمایت درکار ہوتی ہے اور آپ لوگوں کو اپنے ساتھ ڈرا دھمکا کر یا ان کے اوپر الزامات لگا کر یا ان کو مجبور کر کر اپنے ساتھ نہیں ملا سکتے۔

اب آجائیں پاکستان میں چلنے والے امپورٹڈ فارن کرائسس کی طرف، جب پاکستان کے دشمن ممالک جو ہمارے ہمسایہ ممالک بھی ہیں پاکستان میں کوئی بھی بحران لے کر آئے جیسا کہ پاکستان میں کالعدم تنظیموں کی فعالیت، مذهبی فرقہ واریت، اور پاکستان کی قوموں اور نژادوں کو آپس میں لڑانے کی سیاست تو یہ سب فارن امپورٹڈ کرائسس ہیں جبکہ ایک پارلیمنٹ قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک لیڈر آف اسمبلی کو Vote of No Confidence کے ذریعے تبدیل کرے تو اس کا مطلب ہے جمہوریت اور سیاست کے تمام اراکین اس لیڈر سے خوش نہیں ہیں اور سیاسی گروہ بندیاں، جماعتوں کا اتحاد اور پارلیمنٹ کی بالادستی جمہوریت اور ہر ملک کی آزاد سیاست کا حسن ہوتی ہیں جسے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔

بہت سارے ملکوں میں جب ایک سیاسی جماعت یا ایک سیاسی لیڈر ملک کو صحیح معنوں میں ترقی کی راہ میں چلانے میں ناکام ہو جائے تو یا استعفیٰ دے دیتا ہے یا اپنی ناکامیوں کو بیرونی مداخلت کا نام دے کر ملک کو اور بحران میں دھکیل دیتا ہے۔

میری نظر میں پاکستان میں بھی کچھ یہی ہوا اور ایک سیاسی جماعت اور لیڈر نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اور استعفی دینے کی بجائے اپنی انا اور اپنی حکومت کو ترجیح دی جبکہ اس کے پاس پاکستانی قوم کے 50 فیصد سے بھی کم ووٹ تھے اور جمہوریت کے حسن کو نقصان پہنچایا اور پاکستان کو مزید سیاسی بحرانوں کا شکار کر دیا جو کہ ہمارے دشمن ممالک کو خوشحال کرنے کا باعث بنے۔

اگر آپ بھی نیوٹرل ہو کر سارے اتفاقات کو اور ان تین نقاط کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوئے بے سوچیں کہ ملک میں ایک فارن امپورٹڈ کرائسس تھا یا ایک ملک نے اپنی سیاسی ساکھ اور جمہوریت کو بچانے کی کوشش کی تو آپ کو بھی اپنا جواب مل جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے