پاکستان میں جمہوریت کی بقا ایک ایسا امر ہے جو 14 اگست 1947 سے لے کر آج تک سخت جدوجهد کے ساتھ چل رہا ہے کیونکه اس ملک کے سیاسی نظام میں ہر ایک دہائی میں ایک نظام جمهوریت چلتا ہے اور دوسری دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نظر آنا شروع هو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ملکی سیاست derail ہو جاتی ہے اور پاکستان میں مارشل لا کی راہ ہموار هو جاتی ہے.
پاکستان میں درد رکھنے والے سیاستدانوں کو پیدا ہونے ہی نہیں دیا جاتا کیونکہ جاگیردارانہ نظام اور بیوروکریسی کے نظام میں سب نے اپنی اپنی باری لگائی ہوئی ہے.
پاکستان کی بیوروکریسی ایک shadow گورنمنٹ کی طرح کچھ وفادار لوگوں کا انتخاب کرتی ہے اور ان کے لیے ملکی سیاست کی راہ ہموار کرتی ہے اور کچھ سیاستدان یا یوں کہیں تو کچھ کٹھ پتلی سیاستدان ہمیشہ ہر دور میں گورنمنٹ میں اعلی عہدوں (وزیروں اور سفیروں) کے عهدوں سے نوازے جاتے ہیں.
ان لوگوں کو سیاست میں اپنے ملک سے نهیں بلکه اپنے آقاوں سے وفاداری نبھانی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو یا ملک پر فوج کا اقتدار ہو یهی کچھ چہرے دارالحکومتوں میں چمکتے هوے نظر آتے ہیں.
پاکستان میں جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑھنے والوں کے لئے تنهایی کے ساتھ ساتھ مشکلاتوں کے ان گنت پہاڑ ہیں جو کسی بھی محبت وطن پاکستانی کو تھکا کر اسے اس نظام کا حصه بننے پر مجبور کردیتے ہیں اور محمد علی جناح اور علامه اقبال کا آزاد پاکستان کا خواب ادھورا هی رهتا ھے.
جمہوریت صرف حکومت بنانے کے نظام کا نام نہیں ھے بلکہ ریاست کے ھر فرد کو کارآمد بنانے کے نظام کا نام ہے۔
کلام اقبال ھے – “ہر فرد ھے ملت کے مقدر کا ستارہ”
ان حالات میں جب ملک کی سیاست ایک خاص پروٹوکول کے تحت ڈیزائن کی جاتی ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان آزاد ہے!
ڈاکٹر محمد عرفان مقصود ( 1 فروری 2022)
پابلش ان پاکستان اینفو